Misba-hudduja University
Islamic education at your doorstep
حرف آغاز آراء انتظامیہ کونسلز کوآرڈی نیٹرز سلیبس داخلے کتب نتائج داخلہ فارم تصا ویر آڈیو ویڈیو خبریں رابطہ
  اصلی صفحہ > خبریں
  30/11/2010

وکی لیکس کی دستاویزات ... تجزیہ

 

حقیقت یہ ہے کہ یہ تصور کرنا ہی ممکن نہیں کہ اس ویب سائٹ کو چلانے والے حضرات اتنی ساری دستاویزات امریکی افواج و خفیہ ایجنسیوں اور صہیونی تسلط پسندوں کی مرضی کے بغیر شائع کرسکتے ہیں۔

پاکستانی کالم نگار آغا مسعود حسین  نے امریکی و صہیونی ویب سائٹ وکی لیکس کے انکشافات کے بعض نکات کی طرف اشارہ کیا ہے جو کچھ یوں ہیں: 
* وکی لیکس کے افشا کردہ راز نئے نہیں ہیں۔ 
٭ افغانستان میں امریکہ کے نہتے عوام پر ظلم و تشدد کی داستان دکھائی گئی ہے، اور انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو قتل کرنے کی سازش میں پاکستان کی آئی ایس آئی کا کام تھا۔
٭ افغان طالبان کو آئی ایس آئی کی حمایت حاصل ہے بلکہ طالبان کو زمیں سے فضا میں مار کرنے والے میزائل بھی ہاتھ لگ گئے ہیں اور 2005ء میں سات امریکی فوجیوں کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر کو طالبان نے میزائل مار کر گرایا تھا۔ 
٭ امریکی اور نیٹو کے فوجیوں نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے حتی کہ شادی کی تقریبات کو نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کیا ہے۔ ہلمند کے قریب گاؤں میں امریکی اور نیٹو کی فوج نے بمباری کر کے تقریباً ساٹھ بچوں کو ہلاک کیا تھا۔ 
٭ آئی ایس آئی کے افغان طالبان سے گہرے تعلقات ہیں اور یہی ادارہ ان کی افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کے خلاف جنگ میں مدد اور رہنمائی کر رہاہے۔ 
٭ وکی لیکس نے آئی ایس آئی سے متعلق الزام لگا کر افغان صدر کو ایک بار پھر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کا موقع فراہم کیا اور کرزئی کے صدارتی ترجمان نے کہا کہ وکی لیکس کا انکشاف بالکل صحیح ہے کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو قتل کرنے کی سازش میں پاکستان کی آئی ایس آئی کا کام تھا۔ واحد عمر نے امریکی حکام سے استدعا کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں پاکستان کی حکومت سے باز پرس کریں کہ کہاں تک اس انکشاف میں حقیقت ہے؟
٭  افغان ردعمل اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ کرزئی پاکستان کے خلاف اپنے دل و دماغ میں کتنا کینہ رکھتے ہے۔ جبکہ پاکستان کی حکومت نے متعدد بار اس بات کی تردید کی ہے کہ آئی ایس آئی کسی بھی طرح افغان طالبان کی مدد کر رہی ہے۔
٭ ایسے موقع پر جب امریکہ خود افغانستان سے کسی مربوط سیاسی سمجھوتے کے تحت افغانستان سے نکل جانا چاہتا ہے، وکی لیکس کے ذریعے پاکستان کے اہم ادارے آئی ایس آئی کو افغان طالبان کے ساتھ ملوث کرنا اس بات کی کوشش ہے کہ افغان جنگ کا دائرہ پاکستان تک پھیلا دیا جائے یا پھر پاکستان کو مجبور کیا جائے کہ وہ افغان طالبان کے خلاف افغانستان کے اندر جنگ میں شامل ہو جائے۔ 
٭ ان طالبان کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں سے متعلق امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے بیان کا حوالہ دینا ضروری ہے جس میں انھوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج اور عوام نے نیٹو اور امریکہ کی مشترکہ فوج سے زیادہ دہشت گردی کی جنگ میں 41/ارب ڈالر خرچ کئے ہیں جس کا ابھی تک ازالہ نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان حالت جنگ میں ہے اور دنیا جانتی ہے کہ دہشت گردی کی جنگ پاکستان پر مسلط کی گئی ہے۔ 
٭ امریکہ نے البتہ وکی لیکس کے آئی ایس آئی سے متعلق انکشافات کو بے بنیاد اور بیہودہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور باہمی اشتراک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
٭ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر ہوتے جا رہے ہیں پاکستان کا افغانستان کی جنگ میں ایک اہم رول ہے جس کو افغان حکومت بھی سمجھتی ہے جبکہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ امریکہ نے کہا ہے کہ پینٹاگون اس بات کی تحقیقات کرے گا کہ اتنی بڑی تعداد میں امریکہ کی افغانستان سے متعلق فوجی حکمت عملی کی دستاویزات کس طرح وکی لیکس کے صحافی تک پہنچیں؟؟ 
٭ امریکہ کو اس بات کا خدشہ ہے کہ پنٹاگون کے اندر جن عناصر نے یہ حرکت کی ہے اس کی تحقیقات ضروری ہیں۔ 
٭ بعض امریکی سینیٹرز کا یہ خیال ہے کہ اس لیک کے بعد امریکہ کی عراق اور افغانستان میں فوجی حکمت عملی ناکام ہو سکتی ہے۔ جس طرح نیٹو اور امریکی فوجیوں کے ہاتھوں "نہتے طالبان" مارے گئے ہیں، اس کو طالبان اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں اور نیٹو اور امریکی فوج پر حملے تیز کر سکتے ہیں۔ 
٭ تاہم اس لیک کے بعد عالمی برادری یہ سوچنے پر مجبور ہوئی ہے کہ کیا نہتے افغانی عوام کو بے دردی سے قتل کرنے کے سلسلے میں امریکہ کے اور نیٹو کے بعض کمانڈروں پر جنگی مقدمات چلائے جا سکتے ہیں؟؟ بعض افغانی دانشوروں نے کہا ہے کہ اگر امریکی اور نیٹو کمانڈروں پر مقدمات نہ بھی چلائے جائیں تو کم از کم اس بات کا یقین کرنا بہت ضروری ہے کہ ان بے قصور نہتے افغانیوں کو کس جرم کی پاداش میں مارا گیا ہے؟ جوان، بچوں اور عورتوں کا کیا قصور تھا؟ اگر اس بات کا تعین ہو جائے تو ان امریکی اور نیٹو فوجیوں کو گرفتار کرنا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔
٭ وکی لیکس نے ایک ایسے موقع پر یہ دستاویزات اسکرین دکھائی ہیۂ جبکہ افغانستان کی جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے اور اس لیک کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات ایک بار پھر شک وشبہ کی نذر ہو سکتے ہیں اور یہ تعلقات ماضی کی طرح سرد جنگ میں بدل سکتے ہیں۔ 
٭ وکی لیکس پر دستاویزات کا تعلق 2004سے لے کر 2009تک سے ہے اور یہ دور جارج بش کا تھا جبکہ اوبامہ کا کردار ماسوائے جی حضوری کے اور کچھ نہیں ہے۔
یہ تو تھا جناب آغا مسعود حسین صاحب کا تأثر؛ جس سی ظاہر ہوا ہی کہ آغا صاحب وکی لیکس کی انکشافات کو حقیقت کی نگاہ سی دیکھتی ہیں جیسا کہ وہ پاک امریکہ تعلقات کو بہت ہی دوستانہ تصور کرتے ہیں اور اس حوالے سے وہ حکومت پاکستان کے ہمفکر نظر آرہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ انکشافات خارجی دنیا میں بھی اثر گذار ہوسکتے ہیں اور یہ کہ امریکیوں کو ان انکشافات سے بہت زیادہ صدمہ ہوا ہے جبکہ سب کا یہ خیال نہیں ہے اور بعض دوسرے مبصرین گو کہ ان انکشافات کی اثر گذاری کے منکر نہیں ہیں لیکن اثرات کی نوعیت کے حوالے سے آغا صاحب سے بنیادی اختلاف رکھتے ہیں؛ جبکہ بعض دیگر آغا صاحب سے متفق بھی ہیں۔
دیکھئے پروفیسر ابراہیم خان کا تأثر:
ثناء نیوز کی رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی خیبر پختونخواکے امیر سنیٹر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ:
* وکی لیکس کے انکشافات کی وجہ سی امریکی استعمار کا چہرہ سامنے آگیا ہے.
* امریکی فوجوں نے عراق اور افغانستان میں بدترین ظلم ڈھائے؛ معصوم انسانوں کو قتل و تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ دوسری طرف انسانی حقوق کا علم بردار بنا پھرتا ہے۔ 
* امریکی فوجوںکے مظالم اس سے کئی گناہ زیادہ ہیں جن کا انکشاف وکی لیکس نے کیا ہے۔ 
* دراصل امریکی استعمار نے مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ جنگ شروع کر رکھی ہے؛ وہ امت مسلمہ کو اپنا غلام اور تابع فرمان بنانے کے چکر میں ہیں اور بدقسمتی سے مسلمان حکومتوں کے اکثر حکمران اس کے طفیلیوں کا کرادار ادا کرکے امت مسلمہ سے غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ 
٭ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے امت مسلمہ دنیا میں اپنا کھویا ہوا وقار واپس حاصل کریگی اور دنیا کو جنگ اور بدامنی کا گہوارہ بنانے والے امریکی استعمار اور اسکے چیلوں کو بہت جلد شکست فاش ہوگی اور انہیں ذلیل و رسوا ہوکر افغانستان سے نکلنا ہوگا۔ 
٭ امریکی ایماء پر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آپریشن شروع کرنے کی خبروں پر تشویش ہے اور حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور غیروں کی خوشنودی کے لئے اپنے ہی عوام کو آگ اور بارود میں نہیں جھونکیں۔ 
پروفیسر ابراہیم خان نی بھی وکی لیکس کی صداقت کو مشکوک قرار نہیں دیا ہے اور ان کے تأثرات بھی کسی حد تک آغا صاحب سی ملتے جلتے ہیں گو کہ پروفیسر صاحب نے وکی لیکس کی طرف مختصر سا اشارہ کیا ہے اور آغا مسعود کی طرح وکی لیکس کے انکشافات پر تبصرہ کرنے لگ گئے ہیں فرق یہ ہے کہ آغا مسعود نے ان انکشافات کا منفی پہلو لیا ہے اور وکی لیکس کے اس اقدام کو ناپسند کیا ہے جبکہ پروفیسر صاحب نے انہیں مثبت سمجھ کر امریکی رسوائی کا سبب قرار دیا ہے تا ہم معذرت کے ساتھ دونوں حضرات نے ان انکشافات کو نہایت سطحی نگاہ سے دیکھا ہے جبکہ بات در حقیقت کچھ اور ہے اور ڈھائی لاکھ دستاویزات شائع کروا کر امریکیوں نے وکی لیکس سے اپنا کام لیا ہے اور اب امریکی ان ہی انکشافات کی روشنی میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ جس کے لئے آپ اگر ""یہ تبصرہ " <http://abna.ir/data.asp?lang=6&id=215034> دیکھ لیں تو مفید واقع ہوگا. 
دریں اثناء مہر نیوز ایجنسی نے اپنی ایک رپورٹ میں بعض ممالک کے رد عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان ممالک کے حوالے سے لکھا ہے کہ "وکی لیکس کے انکشافات امریکہ اور اسرائيل کی مشترکہ سازش کا نتیجہ ہیں اور دنیا کے کئی ممالک وکی لیکس کے انکشافات کو امریکہ اور اسرائيل کی مشترکہ سازش قرار دے رہےہیں".
مہر نیوز کے مطابق:
٭ ایران کے صدر ڈآکٹر احمدی نژاد نے وکی لیکس کے انکشافات کو امریکہ اور اسرائیل کی سوچی سمجھی سازش قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ دانستہ طور پر اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے جبکہ عرب رہنماؤں کو ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام  پر کوئی تشویش لاحق نہیں ہے اور یہ کہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام پر امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک کو کوئی تشویش لاحق نہیں ہے۔ 
٭ یہ بےبنیاد اور بیہودہ انکشافات امریکی حکومت کی مرضی کے مطابق شائع ہوئے ہیں جن کا مقصد ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو کشیدہ بنانا ہے۔ 
٭ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ امریکی سفارتکار، سفارتی لباس میں جاسوسی کرتے رہتے ہیں اور یہ کوئی نئی بات اور نیا انکشاف نہیں ہے۔
اپنی بات:
اسرائیل نے کل اعلان کیا تھا کہ اسے ان انکشافات سے کوئی تشویش لاحق نہیں ہے اور آج امریکی وزیر خارجہ کے بیان سے ظاہر ہوا کہ "امریکہ کو بھی ان دستاویزات سے نہ صرف کوئی تشویش لاحق نہیں ہے بلکہ آج ہلیری کلنٹن نے ان ہی انکشافات میں شامل عرب حکام کی طرف سے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی تشویش کو اپنی نئی یاوہ سرائیوں کی بنیاد بنا کر کہا کہ "عرب حکام کی تشویش سی ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام امریکہ اور یورپ ہی کے لئے نہیں بلکہ ایران کے پڑوسی ممالک کے لئے بھی باعث تشویش ہے" اور اس کے ساتھ ہی صہیونی وزیر اعظم نی بھی اسی طرح کے خیالات ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ "وکی لیکس کے انکشافات سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کو ایران کے خلاف واضح طور پر موقف اپنانا چاہئے تاکہ معلوم ہوجائے کہ مشرق وسطی کی امن کے لئے اسرائیل نہیں ، ایران خطرہ ہے" البتہ ہلیری کلنٹن نے بھی عرب ممالک سے ایران کے خلاف واضح موقف کا اعلان کرنے کے لئے کہا ہے جبکہ جن عرب ممالک کے حکام کے حوالے سے وکی لیکس نے دستاویزات شائع کرکے انکشاف کیا تھا کہ انھوں نے امریکہ کو ایران پر حملہ کرنے کی تجویز دی ہے؛ ان میں سے اکثر نے آج ہی وکی لیکس کے انکشافات کی پر زور مذمت کرتے ہوئے انہیں جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ انہیں ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام سے کوئی تشویش لاحق نہیں ہے اور انھوں نے کبھی بھی امریکہ سے نہیں کہا ہے کہ وہ ان کے ہمسایہ ملک ایران کو جارحیت کا نشانہ بنادے۔ 
بہر حال جو بات ان تمام حقائق سے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ وکی لیکس امریکی اور صہیونی لابیوں سے وابستہ ہے اور وکی لیکس ویب سائٹ جو بھی دستاویز شائع کرتی ہے امریکیوں اور صہیونیوں کی مرضی سے ہی شائع کرتی ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی دنیا پر فوجی تسلط و استعمار کے بادل چھائے ہوئے ہیں چنانچہ اس صورت حال میں یہ تصور کرنا ہی ممکن نہیں کہ اس ویب سائٹ کو چلانے والے حضرات اتنی ساری دستاویزات امریکی افواج و خفیہ ایجنسیوں اور صہیونی تسلط پسندوں کی مرضی کے بغیر شائع کرسکتے ہیں۔

 

 
۱
۱
   
Site Meter
 

 

Designed by: Shauzab Ali

Copyright © 2004-2009. All right Reserved Misbahudduja University