ان کا کہنا ہے کہ دریافت ہونے والا سیارہ ایک ایسے نظامِ شمسی کا حصہ ہے جو کبھی بونی کہکشاں سے منسلک تھا۔
مجلے سائنس میں چھپنے والی رپورٹ میں ماہرین فلکیات نے کہا ہے کہ اس چھوٹے سائز کی یا بونی کہکشاں کو بعد میں اب تک موجود بڑی کہکشاں نے ہڑپ کر لیا تھا۔
دریافت ہونے والے نئے ستارے کو ایچ آئی پی 13044 کہا جاتا ہے اور وہ اپنی طبعی عمر کے آخر کو پہنچ رہا ہے۔ یہ زمین سے دو ہزار نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔
نئے سیارے کو چلی میں ایک دوربین کی مدد سے دریافت کیا گیا۔
نئے سیاروں کو دریافت کرنے والے اب تک مختلف طریقے استعمال کر کے شمسی نظام سے باہر پائے جانے والے پانچ سو نئے سیارے دریافت کر چکے ہیں۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ اب تک دریافت ہونے والے سارے سیارے بنیادی طور پر کہکشاں سے تعلق رکھتے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ نئی دریافت قدرے مختلف ہے کیونکہ نیا دریافت ہونے والا سیارے ایک ایسے سورج کے گرد گردش کر رہا ہے جو ’ہیلمی سٹریم‘ کہلانے والے ستاروں سے تعلق رکھتا ہے۔ ان ستاروں کا نام ’ہیلمی سٹریم‘ ان کے ایک علیحدہ بونی کہکشاں سے تعلق کی وجہ سے پڑا تھا۔
اس کہکشاں کو چھ سے نو ارب سال پہلے موجود کہکشاں نے ہڑپ کر لیا تھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ نئے سیارے کی کم از کم کمیت مشتری سے سوا گنا زیادہ ہے اور یہ اپنے مرکزی ستارے کے قریبی مدار میں گردش کرتے ہیں۔ یہ سولہ اعشاریہ دو دنوں میں اپنا چکر مکمل کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سیارے نے موجودہ کہکشاں کے وجود میں آنے سے سے پہلے نظامِ شمسی کے ابتدائی دنوں میں تشکیل پائی ہو گی۔
جرمنی کے شہر ہیڈلبرگ میں واقع میکس پلینک انسٹی ٹیوٹ سے منسلک رینر کلیمنٹ نے اسے ایک زبردست دریافت قرار دیا ہے۔
برطانیہ کی رائل فلکیاتی سوسائٹی کے ڈاکٹر رابرٹ میسی کا کہنا ہے کہ رپورٹ کی اشاعت سے موجودہ کہکشاں باہر سے تعلق رکھنے والے سیارے کے وجود کے بارے میں پہلی بار ٹھوس شہادت ملی ہے۔
’ہمارے پاس اس بات پر یقین رکھنے کا جواز ہے کہ کائنات میں ہماری کہکشاں سے باہر بھی وسیع پیمانے پر سیارے موجود ہیں اور ان کی تعداد اربوں میں ہے، لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس بارے میں ٹھوس شہادت سامنے آئی ہے۔
نئے دریافت سے اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ جب ہمارے شمسی نظام کے آخری دنوں میں ہمارا نظام شمسی کیسے دکھائی دے گا۔
ایچ آئی پی 13044 خاتمے کے قریب ہے۔ اپنے مرکز میں پائے جانے والے سارے ہائیڈروجن ایندھن کو استعمال کرنے کے بعد یہ بڑے سائز کے سرخ گولے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ موجودہ صورتِ حال تک پہنچنے کے مرحلے میں یہ ہماری زمین کی طرح کئی چھوٹے سیاروں کو ہڑپ کر چکا ہو۔ |