Misba-hudduja University
Islamic education at your doorstep
حرف آغاز آراء انتظامیہ کونسلز کوآرڈی نیٹرز سلیبس داخلے کتب نتائج داخلہ فارم تصا ویر آڈیو ویڈیو خبریں رابطہ
  اصلی صفحہ > خبریں
  06/12/2010

وکی لیکس اور پاکستان

 

امریکا سے دوستی یا امریکا کی وفاداری کا انکشاف؛ گذرا ہوا وقت لوٹ کر تو نہیں آتا لیکن ۔۔۔

مشرف اسمبلی تحلیل کرکے ٹیکنوکریٹس کی حکومت لانا چاہتے تھے، وکی لیکس  
وکی لیکس کی ایک اور خفیہ دستاویز کے مطابق فروری دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے صرف چھ ماہ بعد صدر پرویز مشرف اس امکان پر غور کررہے تھے کہ قومی اسمبلی تحلیل کرکے ٹیکنو کریٹس کی حکومت لائی جائے ۔ یہ بات اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے پچیس جولائی دو ہزار آٹھ کو واشنگٹن بھیجے گئے مراسلے میں کہی گئی۔ 
مراسلے کے مطابق نواز شریف اور آصف زرداری کے کمزور ہوتے تعلقات دیکھ کر صدر مشرف کو یقین تھا کہ جب ان دونوں کی راہیں الگ ہوں گی تو آصف زرداری کو پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے کیلئے نئے اتحادیوں کی ضرورت ہوگی۔ 
ایسے میں مشرف کی جماعت مسلم لیگ ق ان اتحادیوں میں سے ایک ہوسکتی ہے ۔ تاہم گیلانی اور زرداری کو اس بات کا خدشہ تھا کہ مشرف کے ساتھ کام کرنے کا انہیں سیاسی نقصان ہوسکتا ہے۔ 
گیلانی نے واشنگٹن کے مجوزہ دورے میں یہ معاملہ اٹھانے کا سوچا۔ 
دوسری جانب پرویز مشرف نے امریکی حکومت سے کہا کہ وہ یوسف رضا گیلانی کو اس بات کا یقین دلائے کہ صدر مشرف کے لئے امریکا کی حمایت برقرار رہے گی۔ 
پرویزمشرف قومی اسمبلی تحلیل کرکے ٹیکنو کریٹس کی حکومت لانے پر بھی غور کررہے تھے اور اس سلسلے میں مشاورت جاری تھی ۔ تاہم امریکی سفیر نے اپنی حکومت کو لکھا کہ یہ منظر نامہ عدم استحکام کا سبب بنے گا اور مشرف کی اقتدار سے علیحدگی کے مطالبات زور پکڑ جائیں گے۔ 
دہشت گردی کیخلاف جنگ کے حوالے سے مراسلے میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستانی حکومت نے حقانی نیٹ ورک کیخلاف کارروائی نہیں کی اور نہ ہی کمانڈر نذیر یا گلبدین حکمت یار کو گرفتار کیا گیا۔ 
حکومت کو خدشہ تھا کہ فوجی کاروائی سے قبائلی علاقوں میں ایسی جنگ چھڑ جائے گی جسے کنٹرول کرنا مشکل ہوگا ۔  
نوازشریف نے امریکی سفیر کو پی پی کے ساتھ کام کرنے کا یقین دلایاتھا‘  
واضح ہوگیا ہے کہ امریکا چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کی بحالی نہیں چاہتا تھا۔ 
یہ بات نواز شریف اور اس وقت کی امریکی سفیر کے درمیان ملاقات میں زیر بحث آئی۔ 
نواز شریف نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ انتخابات کے بعد مخلوط حکومت میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔ 
نواز شریف اور امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کی ملاقات 31 جنوری2008 کو اسلام آباد میں ہوئی جس میں چوہدری نثار بھی موجود تھے۔ 
نواز شریف کا کہنا تھا کہ18 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے حکومت بنائی تو اس کا مقصد معزول ججوں کی بحالی اور امن و امان کو بحال کرنا ہوگا۔ 
امریکی سفیر نے کہا کہ کچھ معزول ججوں کو بحال کیا جاسکتا ہے لیکن چیف جسٹس کو نہیں۔ 
اس پر نواز شریف نے اصرار کیا کہ چیف جسٹس کی بحالی کے بغیر دیگر ججوں کو بحال کرنا بے معنی ہوگا۔ 
نوازشریف کا کہنا تھا کہ انتخابات کے بعد مخلوط حکومت میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کرکام کرنے کو تیار ہیں۔ دونوں جماعتوں کے اتحاد کو عملی شکل دی جاسکے تو یہ ایک بہترین چیز ہوگی۔ دونوں جماعتیں سندھ یا پنجاب کی حکومتوں میں بھی مل کر کام کرسکتی ہیں۔ 
نواز شریف نے کہا کہ صدر مشرف سے ان کی کوئی دشمنی نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ انہوں نے1999 کی فوجی بغاوت کے بعد اپنے ساتھ کی جانے والی بدسلوکیوں کا تفصیل سے ذکر کیا۔ 
ملاقات کے دوران نواز شریف اور چوہدری نثار نے کئی مرتبہ یہ بات کہی کہ مسلم لیگ ن امریکا نواز ہے۔ 
نواز شریف نے امریکی سفیر کو یاد دلایا کہ انہوں نے اپنے چیف آف آرمی اسٹاف کی بات رد کرتے ہوئے خلیج کی پہلی جنگ میں امریکی اتحادی فوج کی حمایت میں پاکستانی فورسز کو سعودی عرب میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے خلاف پیپلز پارٹی کے رہنما اور کارکنوں نے مظاہرے کئے۔ 
نواز شریف نے کہا انہیں دکھ ہے کہ امریکا نے اس بات کو یاد نہیں رکھا۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ امریکا نے حال ہی میں جو بہترین کام کیا ہے وہ چیف آف آرمی اسٹاف کے طور پر جنرل کیانی کی نامزدگی کا انتظام کرنا ہے۔ 
مراسلے کے اختتام پر امریکی سفیر نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ایک سابق وزیر اعظم کا اس بات پر یقین کہ امریکا پاکستانی آرمی چیف کی تعیناتی کو کنٹرول کر سکتا ہے پاکستان میں امریکی اثر و رسوخ کی افسانوی باتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔  
وکی لیکس نے پاکستان میں ان کیمرہ سیشن کی پول بھی کھول دی  
وکی لیکس پہلے تو سفیروں کے مراسلے ظاہر کر رہا تھا اب اس نے پاکستان میں ان کیمرہ سیشن کی پول بھی کھول دی ہے اور وہ بھی شدت پسندوں اور ان کے کشمیر سے تعلق کے بارے میں ۔ پشاورکے قونصل خانے سے جاری مراسلے میں ایک شخص کا نام ظاہر کیے بغیر یہ بتایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے ان کیمرہ سیشن میں آئی ایس آئی نے اراکین اور حکومت پاکستان کے سینئر افسروں کو بعض طالبان عناصرکی خوبیوں اور ان کے مقابلے میں حقیقی شدت پسندوں سے متعلق آگاہ کیا۔ 
اس بارے میں دلیل دی گئی کہ دہشت گرد گروہوں میں سے بعض افراد مستقبل میں کشمیر یا کہیں اور آپریشن میں فائدہ مند ہوسکتے ہیں۔ 
ذریعے نے کہا کہ وہاں موجود تمام افراد اس بات پرمتفق نہیں تھے۔  
نوازشریف اسلامی بنیاد پرستی کے خالق ہیں،دادفرسپنتا/وکی لیکس  
وکی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ افغان حکومت میاں نواز شریف کو اسلامی بنیاد پرستی کا خالق سمجھتی ہے جبکہ رچرڈ باؤچر کو خدشات تھے کہ نواز شریف پاکستان میں اسلام کی حمایتی اور مشرف اور امریکا مخالف تحریک چلا سکتے ہیں۔ 
وکی لیکس نے 8 ستمبر 2007 کوکابل میں رچرڈ باؤچر کی افغان صدر حامد کرزئی اور افغان وزیر خارجہ سپنتا کی گفتگو کا انکشاف کیا ہے جس میں پاک افغان جرگے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ 
رچرڈ باؤچر نے کہا کہ پاک افغان جرگے میں مشرف کی شرکت کی تاخیر کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں ڈر تھا کہیں سپریم کورٹ میاں نواز شریف کو وطن واپس آنے کی اجازت نا دے دے۔
افغان وزیر خارجہ سپنتا نے کہا کہ وہ جانتے ہیں میاں نواز شریف ان کے لیے بری خبر ہیں؛ نواز شریف خطے میں اسلامی بنیاد پرستی کے خالق ہیں۔ 
رچرڈ باؤچر نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف پاکستان واپس آ گئے تو وہ اسلام کی حمایتی، مشرف اور امریکا مخالف تحریک کا آغاز کر سکتے ہیں۔ 
ملاقات کے دوران افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ پاکستان میں قبائلیوں کو باقاعدہ نمائندگی کا حق دیا جانا چاہیئے۔ 
رچرڈ باؤچر نے کہا کہ پاکستانی وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سیاسی جماعتوں کا نظام فی الحال نہیں چل سکتا۔  
پاکستانی سیاست میں امریکی کردار بے نقاب  
سابق امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے جنوری 2008 میں مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف سے ملاقات کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی شدید مخالفت کی تھی۔ 
نواز شریف نے ملاقات میں امریکی سفیر کو بتایا تھا کہ چیف جسٹس کی بحالی کے بغیر دیگر جج بحال کرنا بے معنی ہوگا۔ وکی لیکس کے مطابق اس وقت کی امریکی سفیر سے نواز شریف نے 13جنوری 2008 کو ملاقات میں مختلف ایشوز پر تبادلہ خیال کے دوران یہ کہا تھا کہ آزاد عدلیہ کو بحال کئے بغیر قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھا جاسکتا ہے نہ ہی امن و امان کی صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ 
امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کا کہنا تھا کہ کچھ معزول ججز بحال ہوسکتے ہیں لیکن چیف جسٹس افتخار چوہدری بحال نہیں ہوسکتے۔ 
اس پر نواز شریف نے امریکی سفیر کو قطعی طور پر بتایا کہ چیف جسٹس کو بحال کئے بغیر باقی ججوں کی بحالی بے معنی ہوگی۔ 
وکی لیکس کے مطابق نواز شریف کے واضح اور قطعی بیان پر این ڈبلیو پیٹرسن امریکی موقف پر اڑی رہیں اور نواز شریف سے اتفاق نہیں کیا۔ امریکی سفیر نے ن لیگ کے سربراہ سے کہا کہ کچھ ہائی کورٹ ججز بحال ہو جائیں گے تاہم چیف جسٹس افتخار چوہدری بحال نہیں ہوں گے۔  
...............
وہ اس اسلامی ملک کے سفید و سیاہ کے مالک اور عدلیہ و انتظامیہ و مقننہ کے تعین میں ان کا فیصلہ آخری فیصلہ ہے؛ اب بھی کیا اس میں کوئی شک ہے؟ ایک بڑے اسلامی ملک کے حکام امریکیوں کو اپنی وفاداری جتاتے ہیں؛ شرم و حیا کی قید سے آزاد ہوکر حریت اور عزت نفس کی شرط کو پس پشت ڈال کر مسلسل کہتے ہیں: "ہم پرو امریکا ہیں؛ ہم ہی وہی بکاؤ مال ہیں جس کی آپ کو تلاش ہوتی ہے!؟"؛ اپنا اقتدار پکا کروانے کے لئے واشنگٹن کے دورے کئے جاتے ہیں اور امریکی سفیر وائس رائے امریکا کا کردار ادا کرتا / کرتی ہے؛ ہموطنوں کو اب بھی یقین نہیں آیا تو علاج کیا ہے؟
...............
رچرڈ ہالبروک: ہم افغانستان میں بھارتی منصوبوں کے حوالے سے پاکستان کی بات نہیں سنتے
وکی لیکس کے توسط سے منکشف ہونیوالی امریکی خفیہ دستاویزات کے مطابق امریکا کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے اپنے دورہ بھارت کے دوران بھارتی سیکرٹری خارجہ نروپما راؤ کو یقین دلایا کہ ا ن کا ملک افغانستان میں بھارتی منصوبوں کے حوالے سے پاکستان کی بات نہیں سنتا۔
دوران ملاقات انہوں نے پاکستان کی تازہ ترین سیاسی صورتحال کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں آرمی چیف، چیف جسٹس، وزیر اعظم اور نواز شریف سمیت طاقت کے مختلف مراکز غیر یقینی کا شکار ہیں اور صدرزرداری کی حکومت کمزور ہورہی ہے۔
پاک فوج افغانستان میں اپنے اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے لئے طالبان بالخصوص ملا عمر کی سربراہی میں قائم طالبان کی کوئٹہ شوریٰ کو انشورنس پالیسی تصور کرتی ہے۔
مراسلے میں بھارت چین بڑھتے ہوئے تعلقات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے۔ 
بھارتی سفارتکار نے انکشاف کیا کہ چینی وزیراعظم وین جیا باؤ نے کوپن ہیگن میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو بتایا کہ ان کا جنوبی ایشیا میں ثالثی کردار ادا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ 
نئی دہلی میں امریکی سفارتخانے کی طرف سے امریکی محکمہ خارجہ کو ارسال کردہ مراسلے میں بتایا گیا کہ 18جنوری 2010ء کو نئی دہلی میں ہونے والی ملاقات میں امریکی ایلچی نے نروپما راؤ کو بتایا کہ امریکا پاکستان پر ان گروپوں کے خلاف کارروائی کے لئے بہت زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے۔ 
طالبان کے ساتھ تعلق ختم کرنے کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی نروپما راؤ کی درخواست پر ہالبروک نے بھارتی سیکرٹری خارجہ کو کہا ”بہت سے لوگ پاکستان پر امریکی اثرو رسوخ کا غلط اندازہ لگاتے ہیں۔“ 
نروپما راؤ نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ بھارتی کشمیر میں بغاوت کو ہوا دے رہا ہے اور افغانستان کے حوالے سے استنبول کانفرنس میں بھارت کی شمولیت بھی پاکستان نے ہی رکوائی۔ 
طالبان کے سوال پر ہالبروک نے کہا کہ طالبان کے ساتھ رابطہ اور مفاہمت کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کے ساتھ شراکت اقتدار کی جائے گی۔
نروپما راؤ نے بتایا کہ اگر افغانستان کو اس کی فطری مارکیٹ بھارت کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو اس میں توانائی، زراعت اور تجارت کا مرکز بننے کی صلاحیت ہے لیکن بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان ایسا نہیں ہونے دے رہا۔ 
مراسلے کے مطابق انہوں نے کہا کہ امریکا پاکستان پر زور دے کہ وہ افغان طالبان کو سپورٹ نہ کرے اور افغانستان کو تجارتی اور کمرشل رابطوں کے ذریعے ترقی کرنے دے۔ 
نروپما راؤ نے کہا کہ وہ پاکستان کی طرف سے دہشت گرد گروپوں کی مسلسل حمایت پر خوفزدہ ہیں۔ 
انہوں نے کہا کہ لشکر طیبہ، حقانی گروپ اور کوئٹہ شوریٰ نظریاتی طور پر ایک ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے 2008ء میں کابل میں بھارتی سفارتخانے پر حقانی گروپ کے حملے کی مثال دی۔ 
نروپما راؤ نے پاکستان کی حمایت یافتہ بے موسمی تشدد کے واقعات میں اضافے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے لائن آف کنٹرول اور پنجاب میں سرحد پار شیلنگ، بڑھتی ہوئی مداخلت اور دہشت گردی کے سازو سامان کی منتقلی کی مثالیں دیں۔ 
انہوں نے کہا کہ وہ (پاکستان) واضح طور پر کشمیر میں طوفان برپا کرنا چاہتا ہے اور اپنی توجہ افغان بارڈر سے مشرقی سرحد کی طرف منتقل کرنا چاہتا ہے تاہم راؤ نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کی طرف سے اپنی پیٹھ نہیں موڑی بلکہ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے کسی پیشرفت کا خواہاں ہے۔ 
ہالبروک نے راؤ کو یقین دلایا کہ امریکا اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اس کے سٹریٹجک مفادات کہاں وابستہ ہیں۔ 
ہالبروک اور نروپما راؤ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چین کے افغانستان میں بہت زیادہ مفادات ہیں لیکن یہ زیادہ تر اس کے قدرتی وسائل کے حد تک ہیں۔ 
انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ چین پاکستان کو ایک ذمہ دار رویہ اپنانے کیلئے اپنا اثرو رسوخ استعمال نہیں کررہا۔ 
زرداری نے کہا مشرف کی معافی کیلئے امریکا برطانیہ اور جنرل کیانی سے وعدہ کیا ہے  
وکی لیکس کے انکشافات سے یہ پتہ چلا ہے کہ صدر زرداری نے کہا کہ انہوں نے پرویز مشرف کی معافی کیلئے امریکا، برطانیہ اور جنرل کیانی سے وعدہ کر رکھا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کو استعفیٰ دینے پر جنرل کیانی نے آمادہ کیا تھا اور انہوں نے صدر زرداری کے اس وعدے پر استعفیٰ دیا تھا کہ انہیں عام معافی مل جائے گی۔ یہ بھی پتا چلا ہے کہ امریکا چاہتا تھا کہ صدر مشرف کو جلد عام معافی ملے اور وہ پاکستان میں عام زندگی گزاریں۔
وکی لیکس کے مطابق جنرل مشرف کے استعفے کے 2ہی روز بعد امریکی وفد نے جنرل کیانی سے ملاقات کی۔ ملاقات میں جنرل کیانی نے پرویز مشرف کو فوری معافی نہ ملنے پر امریکی سفیر سے تشویش کا اظہار کیا۔ 
جنرل کیانی نے کہا زرداری وعدہ پورا کرنے میں تاخیر کررہے ہیں جس کے باعث وہ اپنے ادارے فوج میں برے بن رہے ہیں۔ 
جنرل کیانی نے کہا کہ اگر زرداری مشرف کو عام معافی دے دیں تو ان کی ساکھ پر مزید کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ 
امریکی سفیر این پیٹرسن نے 21 اگست 2008ء کو وزیراعظم گیلانی سے ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی مشرف کو معافی ضرور دے گی لیکن اس کی ٹائمنگ اہم ہے۔ 
امریکی سینیٹر نے گیلانی کو بتایا کہ مشرف کو معافی ملنا بہت ضروری ہے۔
 
23 اگست 2008ء کو امریکی سفیر کی ملاقات صدر زرداری سے ہوئی، معافی کے سوال پر زرداری نے کہا کہ انہوں نے معافی دینے کیلئے امریکا، برطانیہ اور جنرل کیانی سے پکا وعدہ کر رکھا ہے۔ 
امریکی سفیر نے جلد معافی کا مطالبہ کیا تو زرداری نے کہا کہ صدر بن جاؤں اس سے قبل ممکن نہیں۔ 
امریکی سفیر نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مشرف ریٹائرمنٹ کے بعد ایک باعزت زندگی گزاریں اور انہیں تنگ کر کے ملک چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ 
آصف زرداری نے انکشاف کیا کہ مشرف نے ن لیگ کی جانب سے اپنے خلاف مواخذے کی تحریک کے بعد چیف جسٹس ڈوگر سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ اس تحریک پر حکم امتناعی جاری کردیں لیکن جسٹس ڈوگر نے اس سے انکار کردیا۔ 
زرداری کے مطابق ڈوگر مشرف کی بات مان لیتے تو جنرل مشرف جنرل کیانی کو بھی عہدے سے ہٹادیتے۔   
رحمن ملک نے امریکی سفیر سے کہا آئی ایس آئی چیف صدر کیخلاف سازشیں کر رہے ہیں  
وکی لیکس کی جانب سے سنسنی خیز راز افشا کرنے کا سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے۔ تازہ ترین یہ کہ اگر صدر زرداری کے خلاف کوئی سازش ہورہی تھی تو اس میں امریکی سفیر کے نزدیک محض جنرل شجاع پاشا ہی نہیں بلکہ آرمی چیف جنرل کیانی بھی شریک تھے۔ 
وکی لیکس سے حاصل معلومات کی بنیاد پر جرمن اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر داخلہ رحمن ملک نے پچھلے برس نومبر میں امریکی سفیر سے فوری ملاقات کا وقت مانگا تھا اور کہا کہ صدر زرداری کو سیاسی تحفظ کی ضرورت ہے کیونکہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا صدر کے خلاف سازشیں کررہے ہیں تاہم امریکی سفیر کو یقین تھا کہ جنرل پاشا یہ کام آرمی چیف جنرل کیانی کی رضا کے بغیر نہیں کرسکتے۔
محض جنرل پاشا کو سازش کرنے والا ٹھہرانا رحمن ملک کا بھول پن تھا۔ امریکا کو جان بوجھ کر گمراہ کرنے کی کوشش تھی۔ 
سابق افغان وزیر نے امریکا کو سن دو ہزار 9 ہی میں بتایا تھا کہ جنرل کیانی اور جنرل پاشا کی جو باڈی لینگویج انہوں نے دیکھی ہے وہ صدر زرداری کے وقار کے منافی تھی۔ 
جرمن اخبار نے صورتحال پر کہا کہ جنرل کیانی پاکستان کے طاقتور ترین شخص ہیں۔ 
ڈرون حملوں کی پاکستانی حکام کی جانب سے بظاہر مخالفت سے متعلق بھی نئی باتیں سامنے آئی ہیں۔ 
آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کا یہ بیان بھی پیش کیا گیاہے کہ ڈرون حملوں میں زیادہ تر غیرملکی یا طالبان مارے گئے۔   
مشرف کرزئی سے ناراض تھے،پاک فوج نے ملا عمر سے ثالثی کی پیشکش کی تھی،وکی لیکس  
وکی لیکس کے تازہ ترین انکشاف کے مطابق سابق صدر پر ویز مشرف افغان صدر حامد کرزئی سے ناراض تھے۔ 
افغان انٹیلی جنس چیف امر الصالح نے غیر ملکی سفیروں کو بریفنگ میں کہا تھا کہ پاکستانی فوج نے طالبان رہنما ملا عمر کے ساتھ ثالثی کی پیش کش کی تھی۔ 
افغان صدر حامد کرزئی کو خدشہ تھا کہ امریکا ایران کے ساتھ مل کر افغانستان کو کمزور کر رہا ہے اور انہیں عہدہ صدارت پر نہیں دیکھنا چاہتا!!!۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ امر ال صالح نے دو ہزار نو کے وسط میں غیر ملکی سفیروں کو بتایا تھا کہ پاکستانی فوج نے طالبان رہنما ملا عمر کے ساتھ ثالثی کی پیش کش کی ہے تاہم امریکی سفیر کارل ایکن بری نے یہ تجویز مسترد کر دی تھی۔
جولائی 2009 میں افغان صدر اور امریکی سفیر کارل ڈبلیو ایکن بری کی ملاقات میں امریکا کی مستقبل میں افغانستان کے بارے میں پالیسی پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
حامد کرزئی کا خیال تھا کہ امریکہ کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔ 
صدارتی انتخاب سے پہلے حامد کرزئی کو خدشہ تھا کہ امریکا ایران کے ساتھ مل کر افغانستان کو کمزور کر رہا ہے اور انھیں صدارت سے ہٹانا اور افغانستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے، اس سلسلے میں اسے ایران کی مدد بھی حاصل ہے!!
افغان صدر کے چیف آف اسٹاف عمر داؤد زئی کا کہنا تھا کہ افغانستان کے مذہبی رہنما اور منتخب نمایندے ایرانی ایجنٹ ہیں!!  
ویکی لیکس کا پہلا شکار جرمن وزیر خارجہ کا چیف آف اسٹاف برطرف  
ویکی لیکس کے انکشافات سے کے نتیجے میں ہونیوالے قضئے کے پہلے سلسلے میں جرمنی کے وزیر خارجہ گیڈو ویسٹرویل کے چیف آف اسٹاف ہیلموٹ میٹر کو برطرف کردیا گیا ہے۔ 
ویکی لیکس دستاویزات میں انکشاف کیا گیا تھا کہ گیڈو ویسٹرویل کے چیف آف اسٹاف امریکی سفارت خانے کیلئے مخبری کا کام کرتے ہیں۔ اس انکشاف کے بعد چیف آف اسٹاف نے اس بات کا اعتراف کرلیا تھا جس پر انہیں فوراً برطرف کردیا گیا۔ 
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق وزیر خارجہ کے چیف آف اسٹاف نے وقتاً فوقتاً امریکی سفارت خانے کو جرمن چانسلر اور وزیر خارجہ کے مابین ہونے والی بات چیت سے آگاہ رکھا جس سے امریکا جرمنی طرز سیاست کو اچھی طرح سمجھنے لگا۔ 
امریکی سفارت خانہ جرمن وزیر خارجہ کو ”پرجوش“ اور ”جنگجو“ مزاج کا شخص قرار دیتا رہا۔ 
ویکی لیکس کی دستاویزات میں اس طریقہ کار کو واضح کیا گیا ہے جس کے تحت چیف آف اسٹاف اہم دستاویزات امریکی سفارتخانے کو بھجواتا تھا۔    
امریکا کو یقین تھا کہ آئی ایس آئی کے کچھ عناصر کنٹرول سے باہر ہیں“  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکا سے دوستی یا امریکا کی وفاداری کا انکشاف؛ گذرا ہوا وقت لوٹ کر تو نہیں آتا لیکن صدر زرداری اور جنرل کیانی نے مل کر وکی لیکس انکشافات کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔  
صدر آصف علی زرداری سے پاک فو ج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے گزشتہ روز ملاقات کی جس میں وکی لیکس کے انکشافات کو ملکی، عسکری اور سیاسی قیادت کے خلاف سازش قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ سازشوں کا مل کر مقابلہ کریں گے. 
صدر آصف زرداری سے ایوان صدر میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ملاقات کی، ملاقات میں وکی لیکس کے انکشافات سے پیدا شدہ صورتحال ، ملکی سلامتی اور پیشہ ورانہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔   
......
سوال یہ ہے کہ یہ حضرات انکشافات کو سرے سے تردید ہی کیوں نہیں کرتے؟ اگر قابل تردید نہیں ہیں تو قوم سے معافی کیوں نہیں مانگ لیتے اور یہ کہ پاکستان کی عدالتیں "از خود نوٹس لےکر ان مسائل کا حل کیوں نہیں ڈھونڈ لیتیں؟ ملک کے تمام چھوٹے بڑے مسائل امریکی سفیر اور امریکی حکمرانوں سے حل کرانے کا مطلب کیا ہے؟ کیا اس صورت میں کوئی پاکستانی باشندہ اپنی خودمختاری اور قومی خودی اور ملی عزت و خودداری کا دعوی کرسکتا ہے؟ کیا کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے؟ کیا دہشت گردی اور قتل و غارت و غربت و بےروزگاری اور مہنگائی کو برداشت کرنے والی پاکستانی قوم بیرونی قوتوں سے اپنی وابستگی اور اپنی خودمختاری چھِن جانے مصیبت عظمی کو برداشت کرسکتے ہیں؟
.........
وکی لیکس پر پابندی کیخلاف درخواست خارج، چند افراد کے کپڑے اترنے سے پوری قوم کا فائدہ ہوگا، لاہور ہائیکورٹ  
لاہورہائی کورٹ نے پاکستان میں وکی لیکس کے خلاف پابندی لگانے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی ۔لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ 21 ویں صدی ہے اس میں ایسی باتوں کا سامنے آنا کوئی بڑی بات نہیں، اب تو حوصلے سے سچ کا سامنا کریں۔ وکی لیکس میں آنے والی باتیں اگر سچ ہیں تو اس پر برا منانے کی کوئی بات نہیں۔ پابندی لگوا کر عوام کو کیوں اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ درخواست گزار عارف گوندل نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وکی لیکس سب کے کپڑے اتار رہا ہے اس پر پابندی لگائی جائے. 
جسٹس عظمت سعید نے کہا چند افراد کے کپڑے اترنے سے پوری قوم کا فائدہ ہوگا۔ 
انہوں نے کہا ” وکی لیکس بات تو سچ ہے ۔ ـ ۔ مگر بات ہے رسوائی کی “ فاضل عدالت نے کہا کہ وکی لیکس پر پابندی سے کیا ہوگا سب کو سچ کا سامنا کرنا چاہئے ۔ آپ کیوں سچ سننے سے گھبراتے ہیں اب تو سچ کا سامنا کریں۔ عدالت نے درخواست نا قابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دی۔ 

بشکریہ از روزنامہ جنگ

 

 
۱
۱
   
Site Meter
 

 

Designed by: Shauzab Ali

Copyright © 2004-2009. All right Reserved Misbahudduja University