عراق میں گذشتہ ہونے والے 7مارچ کے انتخابات کا اہم ترین پہلو عراقی شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کا بڑھتا ہوااثرو نفوذ ہے۔مقتدیٰ صدر جو کہ قابل قدر عراقی شیعہ رہنما صادق الصدر کے بیٹے ہیں اور عراق پر امریکی قبضے کے شدید مخالف تصور کئے جاتے ہیں۔مقتدیٰ صدر کیجماعت کے حامی (صدریوں)اور عراق کی اسلامی سپریم کونسل اور سید عمار الحکیم کے شیعہ اتحاد نیشنل الائنس نے انتخابات میں اکثریتی نشستیں حاصل کیں ہیں اور عراقی شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی کو دوسری مرتبہ عراق کا وزیر اعظم بننے میں مدد کی ہے،مالکی ان جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے بعد اس پوزیشن میںہیں کہ عراق میں انتخابات کے بعد سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران پر قابو پا سکیں۔
عراق میں ہونے والے گذشتہ انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے حوالے سے اوباما انتظامیہ نے دعویٰ کیاہے کہ اس نے عراقی اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جبکہ اسی اثناء میں مغرب اور امریکا نے اپنی خواہشات کے مطابق نوری االمالکی اور سی آئی اے کے ایجنٹ ایاد اعلاوی کے درمیان اتحاد بنانے کے لئے بے پناہ کوششیں کیں ہیں۔ان دونوں کے درمیان اتحاد بنانے کے لئے امریکیوں نے کوشش کی ہے کہ عراقی صدر جلال طالبانی پر دباؤ ڈال کر انھیں صدارت سے ہٹایا جائے ،یا وہ خود مستعفی ہو جائیں،جبکہ اوباما اور امریکی نائب صدر بائیڈن نے ذاتی طور پر جلال طالبانی سے مطالبہ کیاہے کہ وہ فوری طور پر عراق کی صدارت کے عہدے سے مستعفی ہو جائیں تا کہ امریکی نواز ایاد اعلاوی کو عراق کا صدر بنایا جائے جبکہ کردستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے امریکا کےاس مطالبے کو مسترد کر دیاہے۔
امریکی نواز ایاد اعلاوی کا العراقیہ اتحاد ،مالکی کا حکومت قانون الائنس کے ساتھ کئے گئے حکومت سازی کے گئے معاہدے کے سبب انتہائی دباؤ کا شکار ہے۔
حکومت قانون الائنس اور ایاد اعلاوی کے درمیان طے پا جانے والی حکومت سازی کے معاہدے کے تحت عراق کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے لئے العراقیہ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سنی رہنما کا نام سر فہرست ہے کہ جن کا عراق کے شمالی صوبے کے شہر موصل میں کافی حد تک کنٹرول ہے۔
ایک حیرت انگیز صورتحال اس وقت سامنے آئی جب عراقی اراکین پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں شرکت نہ کی کہ جس میں نوری المالکی دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوگئے ۔امریکی نوز ایاد اعلاوی جنہوںنے مالکی کے ساتھ ہونے والے حکومت سازی کے معاہدے کو مسترد کر دیا تھا ،مالکی کے انتخاب پر عراق میں خوفناک فسادات کے بارے میں متنبہ کیا ہے ،جبکہ عراقی موجودہ سیاسی صورتحال یہ ہے کہ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی شیعہ جماعتوں بلخصوص مقتدیٰ الصدر کی حمایت کے ساتھ دوبارہ با اختیار ہو چکے ہیں ،جبکہ امریکی روز نامہ ''لاس اینجلس ٹائم'' نے مالکی اور مقتدیٰ صدر کی جماعت کے درمیان ہونےو الے معاہدے کو امریکی مخالف شیعہ رہنما سید مقتدیٰ صدر کی شاندار کامیابی قرار دیاہے جس کے سبب مالکی دوباری وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں ،جبکہ دونوں کے مابین ہونے والے اس معاہدے کو امریکا کی اسٹراٹیجک ناکامی قرار دیا گیا ہے۔جبکہ اس معاہدے کے سببامریکا کی جانب سے عتاب اور فوجی بربریت کا شکار مقتدیٰ صدر کے حمایتیوں کو دوبارہ عراقی سیاست میں ایک اہم کردار حاصل ہو چکاہے۔
مقتدیٰ صدر کی مہدی ملیشیائ:
مقتدیٰ صدر کی مہدی ملیشیاء نے عراق میں امریکی قبضہ کے خلاف اپریل اور اگست 2004کے دوران دو دفعہ بغاوت کی ،جبکہ 2007اور 2008کے درمیان بھی مقتدیٰ صدر کی مہدی ملیشیاء اور امریکیوں کے درمیان خونی محاذ آرائی سامنے آئی تھی جس کے بعد امریکی ذرائع ابلاغ نے'' مقتدیٰ صدر کوعراق کا سب سے خطر ناک آدمی قرار دیا تھا''جبکہ اس کے برخلاف عام عراقیوں بلخصوص عراقی شیعوں کی نظر میں وہ ایک عظیم رہنما اور ہیرو ہیں ،کہ جو نہ صرف الفاظ بلکہ عملی طور بھی امریکی تسلط کے خلاف ہیں اور اس کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔
مقتدیٰ صدر اور عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے درمیان ہونے والا حالیہ سیاسی مفاہمت کا معاہدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹرس کی جانب سے مقتدیٰ صدر کی مہدی ملیشیا ء کے خلاف 2007اور 2008کے دوران کی جانے والی جنگ ایک بے کار حربہ کے طور پر سامنے آئی ہے۔گو کہ مقتدیٰ صدر اب سے کچھ عرصہ قبل تک نوری المالکی کی دوسری مدت کے لئے وزیر اعظم منتخب ہونے کی مخالفت کر رہے تھے کیونکہ امریکی ایماء پر مالکی نے 2008میں مقتدیٰ صدر کی مہدی ملیشیاء کے خلاف صدر سٹی بغداد اور بصرہ میں ایک خوفناک فوجی آپریشن شروع کیا تھاجس کے سبب مہدی ملیشیاء کے 1800کے قریب مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا تھا۔جس کے بعد مقتدیٰ صدر اور حکومت کے درمیان ا ہونےو الے معاہدے کے تحت مقتدیٰ کے حامیوںنے ہتھیار تو ڈال دئیے تھے لیکن وہ امریکیوں کے مکمل انخلاء تک امریکیوں کے خلافآوز بلند کرنے کے حامی ہیں۔ |