محرم آیا جو ہر سال آتا ہے مسافر پرندے کی مانند؛ التہاب و تپَش سے خاکستری اور دھُندلا رنگ لئے ہوئے آسمان کے آفاق سے.
بلوغ کا سرخ مہینہ؛ جس میں عشق نے جنم لیا اور مردانگی و شرف و عطش (پیاس) نے معانی پائے۔
ایسا مہینہ جس میں رونما ہونے والا بے ساحل کے یمِ غم کی کسی بھی لفظ میں گنجائش نہیں؛ ایسا مہینہ جو ہرسال خون خدا (ثاراللہ) کو آسمانوں کی جانب بکھیرتا ہے تا کہ زمانوں کے بادل آفتاب کی سرخی کو نہ چھپا سکیں۔
محرم، فریاد کا مہینہ، بیداری اور پائیداری کا مہینہ، ایسا مہینہ جس کے ایک نصف یوم نے پوری تاریخ کو اپنا مقروض و مرہون بنالیا۔

ایسا مہینہ جو خاک و خون، آگ و پیاس، مشک و تیر، اس کے سربمہر اَسرار ہیں۔
اسی مہینے نازل ہوئیں 72 سرخ آیتیں دلوں کے صحیفی پر اور 72 کہکشانیں عالم وجود کے مدار میں قرار پائیں۔
اسی مہینے ہاتھ گرے تو پر نکلے
یہی مہینہ ہے جو ہرسال منتظر رہتا ہے میرا، آپ کا۔
محرم، خوبیوں اور نیکیوں سے محرمیت کا موسم ہے فرات کے کنارے اگنے والے ہاتھ ملنے کا موسم ہے؛ عاشقی کا موسم.
برسہا برس سے محرم سیاہ پوش ہے اور سینے سب سوگ و عزا سے جوش و خروش سے مالامال۔
برسہا برس سے کربلا ہمارے ٹھنڈے ایام کو حرارت بخشتا ہے اور ہماری تاریک راتوں پر نور و روشنی برساتا ہے۔
کون ہے وہ جو حُر (اور آزادی پسند) ہو اور محرم کو سوگواری نہ کرے؟
کون ہے وہ جو اشکوں کی سواری پر بیٹھ کر عاشورا والوں کی ضیافت میں داخل ہو اور عاشق بن کر نہ لوٹے؟
کون ہے وہ جو سفینۂ نجات میں داخل ہو اور پھر بھی ہوس کی لہروں میں ڈوب جائے؟
کون ہے وہ جو حسین کو اپنے راستے کا چراغ قرار دے اور پیچ و خم سے بھرپور بھول بہلیوں میں کھو جائے؟
کون ہے وہ جو اپنی جان کو مجسم سماعت قرار دے مگر فرات کے اضطراب اور ہنگاموں سے تیرا نام نہ سنے؟
نہ جانے کیا راز ہے کہ ماہ محرم سال کا پہلا مہینہ ہے، شاید راز یہ ہو کہ عزت و عظمت، قیام و جہاد کی گروی ہے اور زندگی صرف خون کے سائے میں بامعنی ہوجاتی ہے۔
|