رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا خط سربمہر ایک وفد کے ہمراہ نجران روانہ ہوتا ہے۔ جب مدینہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا نمایندہ خط لے کے نجران پہنچتا ہے جہاں وہ آنحضرت کا خط بڑے پادری ابوحارثہ کو پیش کرتا ہے۔
ابوحارثہ خط کھول کر نہایت غور و باریک بینی کے ساتھ خط کا مطالعہ کرنے لگتا ہے اور فکر کی گہرائیوں میں کھو جاتا ہے۔
اس دوران شرحبیل کو بلایا جاتا ہے جو کہ فتانت و زیرکی اور مہارت میں شہرہ شہر ہے؛ اس کے علاوہ علاقے کے دیگر معتبر اور ماہر اشخاص کو حاضر ہونے کو کہا جاتا ہے۔ سب ہی اس موضوع پر بحث و گفتگو کرتے ہیں۔
اس مشاورتی مجلس کا نتیجہ بحث یہ نکلتا ہے کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک وفد حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے لئے مدینہ روانہ کیا جائے۔
نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے؛ میر کارواں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے گھر کا پتہ پوچھتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اپنی مسجد میں تشریف فرما ہیں۔
کارواں مسجد میں داخل ہوتا ہے اور سب کی نظریں ان پر ٹک جاتی ہیں۔
پیغمبر (ص) نجران سے آئے افراد کے نسبت بے رخی ظاہر کرتے ہیں، جو کہ ہر ایک کے لئے سوال انگیز ثابت ہوا۔ ظاہر سی بات ہے کارواں کے لئے بھی ناگوار گذرا کہ پہلے دعوت دی اب بے رخی دکھا رہی ہیں! آخر کیوں؟
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی (ع) نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ عیسائیوں سے فرمایا کہ آپ زیورات و تجملات اور سونے اور جواہرات کے بغیر، معمولی لباس میں آنحضرت (ص) کی خدمت میں حاضر ہو جائیں، آپ کا استقبال ہوگا۔
اب اراکین کاروان معمولی لباس میں آنحضرت (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں اپنے پاس بٹھایا۔
میر کارواں ابوحارثہ نے گفتگو شروع کی: آنحضرت (ص) کا خط موصول ہوا، مشتاقانہ آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ (ص) سے گفتگو کریں۔
- جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سب سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خدائے واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین اسلام کو قبول کریں۔
- اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔
- اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہو تو عیسی (ع) کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے۔
- اس بارے میں ہمارے پاس بہت ساری دلائل ہیں؛ عیسی مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے، برص کے مرض میں مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے۔
- آپ نے عیسی علیہ السلام کے جو معجزات گنوائے وہ صحیح ہیں لیکن خدائے واحد نے انہیں ان سب اعزازات سے نوازا تھا اس لئے عیسی (ع) کی عبادت کرنے کے بجائے اس کے خدا کی عبادت کرنی چاہئے۔
پادری یہ جواب سن کے خاموش ہوا۔ اور اس دوراں کارواں میں شریک کسی اور نے ظاہرا شرحبیل نے اس خاموشی کو توڑا :
- عیسی (ع)، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے۔
اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو اس کا جواب وحی کی صورت میں نازل فرمایا: "إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ کُن فَيَکُونُ{آل عمران /59}"؛ عیسی کی مثال آدم کے مانند ہے؛کہ اسے (ماں ، باپ کے بغیر) خاک سے پیدا کیا گیا۔
اچانک خاموشی چھا گئی اور سب ہی بڑے پادری کو تکنے لگے اور وہ خود منتظر ہوا کہ شرحبیل کچھ کہہ دے جبکہ شرحبیل خاموش سرجھکائے بیٹھا رہا۔
بڑا پادری آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آیا اور کہنے لگا: ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئے ہیں اسی لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباہلہ کیا جائے اور خدا کی بارگاہ میں دست بدعا ہو کر جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔
ان کا خیال تھا کہ ان باتوں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ اتفاق نہیں کریں گے ۔ لیکن ان کے ہوش اس اڑ گئے جب رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم نی الله کی جانب سی نازل هونی والی آیت عیسائیون کی سامنی تلاوت فرمائی:
انہوں نے سنا:
"فَمَنْ حَآجَّکَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءکُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءکُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْکَاذِبِينَ" {آل عمران/61}؛
ترجمہ: اب جو شخص اس بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے‘ اس کے بعد کہ یہ علمی دلائل آپ کے پاس آگئے تو کہہ دیجیے کہ آؤ! ہم بلالیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو۔ پھر التجا (مباہلہ) کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔
چنانچہ طے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع) صحرا میں ملتے ہیں۔
یہ خبر پورے شہر میں پھیل گئی؛ لوگ مباہلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے۔
نجران کے نمائندے آپس میں کہتے تھے کہ: اگر آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) اپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتا ہے تو وہ اپنے دعوے میں سچا ہے۔
سب کی نظریں شہر کے دروازے پر ٹکی ہیں؛ دور سے مبہم سایہ نظر آنے لگا جس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا۔
جو کچھ وہ آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اس کا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہاتھ سے حسین علیہ السلام کو آغوش میں لئے ہوئے ہیں اور دوسرے ہاتھ سےحسن علیہ السلام کو پکڑ کر بڑھ رہے ہیں ۔ آنحضرت(ص) کے پیچھے پیچھے ان کی دختر گرامی سیدة النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے آنحضرت کے عمو زاد بھائی، حسنین(ع) کے والد اور فاطمہ(س) کے شریک حیات، علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔
صحرا میں کانا پھوسی اور گو نجاگونج کی صدائیں اٹھنے لگیں۔ کوئی کہہ رہا ہے دیکھو پیغمبر(ص) اپنے سب سے عزیز ساتھ لے آئے ہیں۔
دوسرا کہہ رہا ہے: اپنے دعوے پر آپ (ص) کو اتنا یقین ہے کہ ان کو ساتھ لائے ہیں۔
اس اثناء بڑے پادری نے کہا: ہائے رے افسوس اگر آپ(ص) نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ہم اسی لمحے اس صحرا میں قہر الہی سے دوچار ہوجائیں گے۔ دوسرے نے کہا تو پھر اس کا سد باب کیا ہے؟
جواب ملا اس کے ساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تاکہ آپ ہم سے راضی رہیں؛ اور ایسا ہی کیا گیا۔
اس طرح حق کو فتح ہوئی اور باطل رسوا ہوگیا۔
مباہلہ پیغمبر(ص) کی حقانیت اور امامت کی تصدیق کا نام ہے؛ مباہلہ خاندان پیغمبر (ص) کا اسلام پر آنے والے ہر آنچ پر قربان ہوجانے کےلئے الہی منشور کا نام ہے۔
تاریخ میں ہم اس مباہلے کی تفسیر کبھی امام علی(ع) کی شہادت، کبھی امام حسن(ع) کی شہادت، کبھی امام حسین(ع) کی شہادت، کبھی امام علی زید العابدین(ع) کی شہادت، کبھی امام محمد باقر(ع) کی شہادت، کبھی امام جعفر صادق(ع) کی شہادت ، کبھی امام موسی کاظم(ع) کی شہادت ، کبھی امام علی بن موسی الرضا(ع) کی شہادت ، کبھی امام محمد تقی الجواد(ع) کی شہادت، کبھی امام علی النقی الہادی(ع) کی شہادت، کبھی امام حسن عسکری(ع) کی شہادت اور کبھی امام مہدی (عج) کی غیبت کی صورت میں دیکھ رہے ہیں جو عملاً اجر رسالت کی الٹی تفسیر بھی ہے اور حدیث ثقلین کا عملی انکار بھی ہے؛ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس دن سے لے کر اسلام کی بقا کیلئے یہی اہل مباہلہ، قربان ہونے کیلئے سامنے آتے نظر آتے رہے ہیں اور اسلام دشمن قوتوں کی ہر سازش کو ناکام بنادیتے ہیں۔
اللہ کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ ہمیں مباہلہ میں فتح پانے والے اسلام پر عمل کرنے اور پیغمبر (ص) کی تعلیمات کی ترویج و تبلیغ کرنے والے ائمۂ معصومین علیہم السلام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
|